Freitag, 15. Juli 2011

یہ خیر و شرّ کے سلسلے

یہ خیر و شرّ کے سلسلے

خیر اور شر کی آمیزش اور آویزش سے نکھریں
بھول اور توبہ کرتے  سارے سانس بسر ہوجائیں

     میرے ایک فلم ساز دوست ص۔پ ہیں۔فلمسازی کے میدان میں دویادگارفلاپ فلمیں چھوڑنے کے علاوہ انہوں نے تیسری فلم مکمل کرکے ڈبے میں ہی بند کردی ہے۔ اپنی دوسری فلم میں انہوں نے ایک نئی لڑکی بطور ہیروئن کا سٹ کی۔ لیکن ابتدائی مرحلے میں ہی اسے دل دے بیٹھے، شادی کی بات طے ہوگئی۔ چنانچہ انہوں نے کوشش کرکے پوری فلم اسلامی مزاج کے مطابق بنائی۔ پوری فلم میں ہیروکو ہیروئن کے قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ بس دور ہی دور سے پیار کی پینگیں بڑھائی گئیں۔ ہیروئن کو برقع پہنایاگیا۔ رقص میں سر سے دوپٹہ نہیں اُترنے دیاگیا۔ فلم فلاپ ہوگئی لیکن فلم ساز اور ہیروئن کی شادی کامیاب رہی۔ خدا کرے آگے بھی کامیاب رہے۔ یہ تعارف تو ضمنی تھا۔ اصل بات مجھے یہ بتانا تھی کہ موصوف بے حد محبت کرنے والے انسان ہیں۔ جس سے محبت کرتے ہیں اسے اعلیٰ قسم کی شراب ضرور پلاتے ہیں۔ اکثر احباب محض شراب پینے کے شوق میں جان بوجھ کر اُن کی محبت کا شکار ہوتے ہیں۔ میں جب پہلی بار اُن کی محبت کی زد میں آیا تو انہوں نے بڑے خلوص سے اپنے گھر پر مدعو کیا اور بڑی محبت کے ساتھ کوئی مہنگی سی شراب میری تواضع کے لئے پیش کی۔ میں نے سلیقے سے معذرت کرلی اور انہیں بتایا کہ ابھی تک سگریٹ کے لطف سے بھی محروم ہوں۔ بس صرف شاعر دِکھنے کے لئے ایک دو تصویریں ایسی ضرور بنوالی ہیں کہ جیسے سگریٹ پی رہا ہوں۔ اس وقت تو موصوف نے رسمی حیرت کا اظہار کرکے مجھے چھوڑ دیا مگر میرے لئے ان کی محبت اسی طرح موجزن رہی۔ چند ملاقاتوں کے بعد وہ مجھے ایک فائیواسٹار ہوٹل میں لے گئے۔ ان کی ہیروئن بیگم بھی ساتھ تھیں۔ وہاں انہوں نے نے شراب کا آرڈر دے دیا۔ میں عجیب کشمکش میں مبتلا تھا۔ فائیو اسٹار ہوٹل کا ماحول، دوست کی محبت کی شدت اور ہیروئن بھابی کامسکراہٹیں بکھیرتا ہوا اصرار۔
۔۔۔۔ دل نے متعدد دلائل پیش کرنا شروع کردیئے۔ دیکھو یار! کسی کی محبت اور خلوص کو ٹھکرانا شراب پینے سے بڑا پاپ ہے۔ خود کو نیک سمجھنے والے متکبر ہو کر ابلیس قرار پاتے ہیں۔ اس مقام سے بچو۔تھوڑی سی شراب پی لو تاکہ خود کو بہت زیادہ نیک پاک نہ سمجھ سکو۔ احساسِ گناہ سے طبیعت میں سوز و گداز پیدا ہوگا اور پھر توبہ کی توفیق ملے گی۔ بے شک اللہ تعالیٰ بے حد غفورالرحیم ہے۔ ارے یار! جنت میں بھی تو شراب ملنے کی بشارت ہے۔ پتہ نہیں جنت میں داخلہ ملتا ہے یا نہیں۔ وہاں داخلہ نہ ہوا تو جہنم میں رہ کر بھی شراب کی لذت سے ناآشنا رہو گے۔ لعنت ہے ایسی جہنمی پر! ۔۔۔۔
دل کے دلائل ابھی جاری تھے ،لیکن شراب ختم ہوچکی تھی۔ اب میرے سامنے خالی جام دھراتھا۔ کوئی نشہ نہیں ہوا۔ بعد میں پتہ چلا یہ تو زیٹ تھی جس میں ۱۰فیصد الکوحل ہوتی ہے گویا کوکاکولا سے تھوڑی زیادہ تھی لیکن پھر بھی تھی تو شراب ہی۔ چنانچہ احساسِ گناہ غالب ہونے لگا۔ میری عادت ہے کہ کوئی بات دل پر بوجھ بننے لگے تو بیوی کو ضرور بتادیتا ہوں چنانچہ میں نے بیوی کو خط لکھ دیا کہ یہاں میں ایک دوست اور اس کی بیوی کا دل رکھنے کے لئے شراب کا ذائقہ چکھ چکا ہوں۔ ساتھ ہی اپنی بیوی کا دل رکھنے کے لئے مزید واضح کردیا کہ اس واقعہ سے رنجیدہ یا پشیمان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آخر یورپ پہنچ کر بھی مجھے وائن کا ذائقہ تو چکھنا ہی تھا۔ یوں گناہ کا احساس تو کم ہوگیا لیکن ایک سوال ذہن میں اٹھنے لگا۔ گناہ فی ذاتہٖ کیا ہے؟۔ پھر اس سوال سے منسلک متعدد ذیلی سوال اور حقیقت واضح ہونے لگی۔
۔۔ ۔۔دُنیا میں کوئی فعل فی ذاتہٖ اچھا یا برا نہیں ہے۔ کسی فعل کو آپ مکمل خیر یا شر قرار نہیں دے سکتے۔ مثلاً مرد اور عورت کے تعلق کا جنسی عمل ایک حقیقت ہے۔ مذہبی یا سماجی نقطۂ نظر سے معاملہ صرف یہ ہے کہ جب یہ تعلق شادی کی کاروائی کے بعد استوار ہوتا ہے تو عین ثواب قرار پاتا ہے اور اگر شادی کے بغیر استوار کرلیاجائے تو قابلِ نفرین! ۔ کسی انسان کو عام حالات میں قتل کردیا جائے تو ظلمِ عظیم قرار پاتا ہے لیکن اپنے وطن کی حفاظت کے نام پر جنگوں میں ہزاروں، لاکھوں انسان ہلاک کردیئے جاتے ہیں اور فخر کیاجاتا ہے۔ انسانوں کے قاتلوں کو ان کے کارناموں پر تمغے عنایت کئے جاتے ہیں۔ گویا جنسی عمل ہو یا قتل انسانی۔ اپنی ذات میں کوئی فعل نہ اچھا ہے نہ بُرا۔ اس کامذہبی، سماجی یا سیاسی تناظر اسے خیر یاشر کے خانے میں ڈالے گا۔
۔۔۔۔اگر دنیا کا یہ کارخانہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے اور اس نے ہر ذرّے میں خواص رکھے ہیں اور ہر ذی روح کو استعدادیں بخشی ہیں تو ہر ذی روح کا کمال یہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے عطا کی گئی اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو کمال تک پہنچائے۔ اگر یہ فارمولا طے ہے تو پھر سور کو آپ لاکھ برا بھلا کہہ لیں اس بے چارے نے کرنا وہی کچھ ہے جو اسے قدرت کی طرف سے ودیعت کیاگیا ہے۔ سانپ میں ڈسنے کی استعداد اور بچھو میں ڈنک مارنے کی استعداد بھی تو خدا نے رکھی ہے۔ اگر سانپ کسی کو ڈستا ہے یا بچھو کسی کو ڈنک مارتاہے تو وہ ان کے لئے خیرہے کیونکہ وہ اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو بروئے کار لارہے ہیں۔ شر تو اُن کے لئے ہے جو اُن کا شکار ہو رہے ہیں۔ لہٰذا سُور ہو،سانپ ہو، بچھوہو یا میرے کرم فرما شیخ صاحب ۔ سب اپنے اپنے عمل میں، طور طریقوں میں حق بجانب ہیں۔
۔۔۔ ۔جرأت وغیرت اور غنڈہ گردی و ظلم میں تفریق کسی فعل کی نوعیت سے نہیں کی جاتی۔ فعل تو ایک ہی ہے۔ اگر ہمارے خلاف سرزد ہورہاہے تو غنڈہ گردی اور ظلم ہے اور اگر ہم اس کا ارتکاب کررہے ہیں تو یہ جرأت اور غیرت ہے۔ میرے ایک مرحوم دوست کہاکرتے تھے کہ ترقی پسندوں نے ادبی مارشل لا نافذ کیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ویسا ہی طرزِ عمل بعض دینی ادب والوں نے بھی اپنا رکھا ہے تو وہ مسکرائے اور بولے بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن ہم اسے مارشل لا کی جگہ ماشاء اللہ کہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ سچ اور جھوٹ کا ہے۔ بعض لوگ صاف گوئی سے کہتے ہیں کہ دروغ مصلحت آمیز جائز ہے جبکہ بعض لوگ ہر طرح کے جھوٹ کو جھوٹ قرار دے کر بآوازِ بلند لعنتہ اللہ علی الکاذبین پڑھتے ہیں لیکن اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جھوٹ سے لے کر دھوکہ دہی تک سب حربے بھی استعمال کرجاتے ہیں اور پھر بڑی معصومیت کے ساتھ اسے مومنانہ فراست اور حکمت قرار دے دیتے ہیں۔ میرے کرم فرما شیخ صاحب بھی اسی قماش کے مومن ہیں۔ ایک دانشور دوست نے غالباً شیخ صاحب جیسے لوگوں کے لئے ہی کہا تھا کہ باوضو ہو کر گناہ کرتے ہیں اور گناہ کرنے کے بعد بھی باوضو رہتے ہیں۔
۔۔۔ ۔میرا اپناخیال ہے کہ ہر سچ میں کچھ نہ کچھ جھوٹ اور ہر جھوٹ میں کچھ نہ کچھ سچ ضرور ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص تاروں بھرا آسمان دیکھ کر کہے کہ میں اس وقت آسمان پر موجود اتنے سارے ستارے دیکھ رہاہوں، تویہ بات بالکل سچ ہوگی۔ اس کے باوجود اس میں غیرارادی جھوٹ بھی شامل ہوگا۔ کیونکہ حقیقتاً جن ستاروں کی روشنی ہم تک پہنچ رہی ہوتی ہے وہ اس وقت کی نہیں ہزاروں برس پہلے کی ہوتی ہے۔ اس طرح اگر کوئی شخص تیسری دنیا کے بعض ممالک کے غیر انسانی رویوں سے تنگ آکر مغربی ممالک میں سیاسی پناہ لیتاہے تو اس کا بیان عموماً ۹۹فی صد جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کا دکھ سچا ہوتا ہے اس لئے اس کے مداوا کے لئے دیا گیا اس کا جھوٹا بیان بھی سچ ہے۔ مکمل سچائی تو صرف خدا تعالیٰ کی ہستی ہے۔ باقی سب جزوی سچائیاں ہیں اس لئے اپنے جزو پر نازاں ہو کر کسی دوسرے پر انگلی اٹھانے والے کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسی وقت اس کی اپنی باقی ساری انگلیاں خود اُسی پر اٹھی ہوتی ہیں۔
۔۔۔ ۔تمام چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ سردی اور گرمی۔ بہار اور خزاں۔ دن اور رات۔ علم ریاضی کا سارا نظام جمع اور نفی پر قائم ہے۔ بجلی میں مثبت اور منفی مل کر کرنٹ پیدا کرتے ہیں۔ تمام جانداروں میں نر اور مادہ مل کر زندگی کو قائم رکھتے ہیں۔ زرتشت مسلک میں دو خداؤں کا تصور ہے۔ یزداں، خیر کا خدا۔ اور اہر من، شر کا خدا۔ دونوں کے درمیان ازل سے مقابلہ جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ خیر اور شر کی دو بڑی قوتوں کا تصور کسی نہ کسی رنگ میں ہر مذہب میں موجود ہے۔ خیر اور شر کی اسی آویزش اور آمیزش سے ہی تو کائنات رنگ برنگی لگتی ہے۔ یہ خیر و شر کے سلسلے کتنے خوبصورت ہیں۔
۔۔۔۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہیگل کی جدلیات کاجادو کتنا طاقتور ہے جو آج بھی ساری کائنات کے سر چڑھ کر بول رہا ہے
!
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen