Freitag, 15. Juli 2011

فاصلے،قربتیں:انشائیے

 
فاصلے،قربتیں
  
انشائیے






ابا جی کے بڑے بھائی
 
اپنے بابا جی کے نام
 
جنھوں نے ایک انشائیہ نگار جیسی زندگی بسر کی

خاموشی

خاموشی

گیت  سناتے  ہیں  جھرنے  کے گرنے کا

حرف جو خاموشی کی صدا میں گرتے ہیں

    ہنگامہ اور شور زندگی کے صحیح عکاس نہیں۔ اسی طرح سنّاٹا اور ویرانی بھی زندگی کے ترجمان نہیں ہیں۔ ان کے برعکس خاموشی زندگی کی حقیقی عکاسی کرتی ہے۔ جو لوگ سنّاٹے اور خاموشی میں فرق نہیں کرپاتے وہ خاموشی کی اہمیت نہیں جان سکتے۔سنّاٹا بے روح اور بے آواز ہوتا ہے جبکہ خاموشی زندگی کی عکاس ہی نہیں، زندگی کو جنم بھی دیتی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟۔ دل کی دھڑکن کا ہر بار ایک وقفے کے ساتھ خاموشی اختیار کرنا اور پھر خاموشی کے اسی وقفے سے اگلی دھڑکن کا جنم لینا زندگی کو جنم دینا نہیں تو اور کیا ہے! پھر خاموشی سنّاٹے کی طرح بے آواز بھی نہیں بلکہ خاموشی کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ جب مکمل خاموشی ہو، ہونٹ بھی خاموش ہوں تب دو دھڑکتے دلوں کی جو گفتگو ہوتی ہے اسے اہلِ دل بخوبی جانتے ہیں۔ کوئی صوفی جب تک کسی گوشۂ خاموشی میں نہ جائے تب تک اس کے دل کے تار حقیقتِ عظمیٰ سے نہیں مل پاتے۔ کسی ہنگامہ خیز، پُرشور ماحول نے نہ کبھی دو سچے دلوں کو ملنے دیا ہے اور نہ کبھی کوئی سچا صوفی پیدا کیا ہے۔ عبادت گاہوں میں جب تک خاموشی نہ ہو عبادت کا لطف ہی نہیں آسکتا، یوں بھی خاموشی بجائے خود عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے لاؤڈاسپیکر کا استعمال عام ہوا ہے، عبادت گاہوں میں بھی شور سنائی دینے لگا ہے اور عبادتوں کا تقدس ختم ہوتا جارہا ہے۔
۔۔۔۔ عبادت کی حیثیت سے خاموشی وظیفۂ ردِّ بلا بھی ہے۔ ایسا قرض خواہ جو دو سال سے پھیرے لگانے کے بعد یہ ارادۂ بد لے کر آئے کہ آج حتمی فیصلہ کرکے جاؤں گا یا ایسا مالک مکان آئے جو گزشتہ چھ سات ماہ کا کرایا یکمشت لینے کی شرانگیزی پر تُلا بیٹھا ہو، ایسے لوگ جب ایسے بدارادوں سے آتے ہیں تو گالی گلوچ سے بھی دریغ نہیں کرتے لیکن ان کے ہر شر سے بچنے کے لئے خاموشی سب سے بہتر وظیفہ ہے۔ ایسے ابتلا کے موقع پر آپ دل ہی دل میں ’’جوابِ جاہلاں باشد خموشی‘‘ کا وِرد بھی کرسکتے ہیں۔ اگر غلطی سے آپ یہ وِرد باآوازِ بلند کربیٹھتے ہیں تو اسی وقت آپ کو خود احساس ہوجائے گا کہ خاموشی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے اور یہ حقیقت بھی آپ پر عملی صورت میں منکشف ہوگی کہ جاہلانہ کلام سے خاموشی بہتر ہے۔
۔۔۔۔آواز کی دلکشی بھی خاموشی کے پس منظر کی محتاج ہے۔ ہوٹلوں اور بازاروں میں پوری آواز کے ساتھ نشر کئے جانے والے گیت سَر میں درد پیدا کردیتے ہیں جبکہ وہی گیت آپ رات کو مکمل خاموشی کے پس منظر میں مدھم آواز سے سُنیں تو آپ خود بھی ان گیتوں کے سُروں کے ساتھ جیسے بہتے چلے جائیں گے۔ سرگوشی اور دھیمی گفتگو آواز کے خاموشی کی طرف جھکاؤ کے مظہر ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ آوازوں میں جو لطف سرگوشی اور دھیمی گفتگو میں ہے وہ بلند لہجے کی آواز میں نہیں ہے۔
۔۔ ۔۔ میرے ایک کرم فرما’’ش۔ن‘‘ بے حد دھیمی گفتگو کے عادی ہیں، اس حد تک کہ عام لوگوں کو اُن کی آواز سننے اور سمجھنے کے لئے کان اس طرح کھڑے کرنے پڑتے ہیں جیسے وہ ہمسائے کے گھر کی آوازیں سننے کی کوشش کررہے ہوں۔ لیکن میرا اور اُن کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ وہ اور میں اکیلے ہیں اور وہ اپنے مخصوص صوفیانہ لہجے میں گفتگو کررہے ہیں۔ مجھے صرف ان کے ہونٹ ہلتے نظر آتے ہیں یا کبھی کبھار ایک آدھ لفظ کانوں تک پہنچ جاتا ہے لیکن میرے نزدیک اس لفظ کی کوئی اہمیت نہیں۔میں تو اُن کی بولتی ہوئی خموش گفتگو نہ صرف پوری طرح سنتا ہوں بلکہ خود بھی ساتھ ساتھ شریکِ گفتگو رہتا ہوں۔ ہمارے درمیان ابلاغ کا کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔
۔ ۔۔۔بعض لوگ خاموشی کو شکست کی آواز سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ تاریخ اور مستقبل سے بے خبر’’حال مست‘‘ ہوتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ خاموشی تو فتح کی پیش خبری ہوتی ہے۔ جب سمندر خاموش ہو یا فضا میں ہوا خاموش ہو تب خاموشی طوفان اور آندھی کی صورت اپنا جلالی روپ دکھاتی ہے۔ سقراط نے زہر پی کر، حسینؑ نے شہید ہو کر اور ابن منصور نے سولی قبول کرکے خاموشی سے صبر کے جو عظیم نمونے دکھائے بظاہر وہ اُس عہد کے جھوٹوں اور جابرو ں کے سامنے شکست ہی تھی۔ لیکن درحقیقت ان مظلوموں اور سچوں کی خاموشی اُن کی فتح کی پیش خبری تھی جسے آنے والے وقت نے سچ ثابت کیا۔ مظلوموں کی خاموشی کی یہ سچائی ہمیشہ سے قائم ہے۔
۔۔۔ ۔خاموشی اپنے اندر معنویت کے بے پناہ امکانات رکھتی ہے جبکہ آواز کی قید میں آنے والے لفظ مخصوص اور محدود معنویت کے حصار میں آجاتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ موجودہ دور کی ماردھاڑ سے بھرپور بے معنی فلموں کے مقابلہ میں پرانے زمانے کی خاموش فلموں میں کتنی معنویت ہے۔ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق جو معنی چاہے اخذ کرلے۔ ہمارے تجریدی افسانہ نگار اگر تجرید کے ہنگاموں کی بجائے خاموش اور بے لفظ کہانیوں کی طرف توجہ کریں تو انہیں پسند کرنے والے نقاد سادہ اور صاف صفحات میں اس سے بھی زیادہ معنویت ڈھونڈ نکالیں گے جتنی وہ ان کی تجریدی کہانیوں سے نکال لاتے ہیں۔
۔۔۔ ۔انسان خاموشی کو توڑتی ہوئی ایک چیخ کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے۔ نتیجۃً ساری زندگی ہنگامہ بازی میں گزاردیتا ہے۔ہر وقت بے اطمینانی، مسئلے، پریشانی، اضطراب۔ لیکن موت کی خاموشی آتے ہی وہی پریشان حا ل انسان کتنا شانت اور کتنا پرسکون ہوجاتا ہے۔
۔۔۔ ۔اتحاد اور امن کے نام پر قائم ہونے والے مقامی، قومی اور بین الاقوامی ہر سطح کے ادارے خاموشی کی قدروقیمت سے ناآشنا ہیں۔ اسی لئے انتشار اور بدامنی کا شکار ہیں۔ کہیں کسی اسمبلی کے ممبران میں ہاتھا پائی، کہیں ہاتھوں، ٹانگوں سے پکڑ کر باہر پھینکوانے کے منظر، کہیں گالی گلوچ۔ اگر ایسے تمام ادارے اپنے ہر اجلاس میں خاموشی کو حرزِ جاں بنالیں تو ساری دُنیا اتحاد اور امن کا گہوارہ بن جائے۔ نہ کوئی تقریر ہو نہ تکرار، نہ کوئی قرارداد نہ بحث، اجلاس چار گھنٹے کا ہو تو بے شک آٹھ گھنٹے تک بیٹھے رہیں بلکہ سوتے رہیں۔ یوں بھاری الاؤنسز کے ساتھ اوور ٹائم بھی مل سکتا ہے۔ اس طرح خاموشی ہر سطح پر اتحاد اور امن کے ساتھ معاشی لحاظ سے بھی نعمت بن سکتی ہے۔
۔۔۔ ۔نئی تہذیب شور اور ہنگامے سے عبارت ہے۔ اب لڑکیاں برملا رشتے پسند یا ناپسند کرتی ہیں۔ اگلے وقتوں میں جب نئی تہذیب ابھی مسلّط نہیں ہوئی تھی، کیا حیاداری تھی۔ لڑکی کے بزرگ اور قاضی صاحب لڑکی کے پاس جاتے، اس سے دریافت کرتے، یہ رشتہ منظور ہے؟۔ پھر اس کی خاموشی کو نیم رضاہی نہیں پوری رضامندی سمجھ کر اس کا انگوٹھا لگوالیتے۔ یہ سب خاموشی کا فیض تھا جس سے ہمارا معاشرہ اب تقریباً محروم ہوچکا ہے۔
۔۔۔ ۔خاموشی خیر کی علامت ہے جبکہ شور، شر کا مظہر ہے۔ شورپسند لوگ شورش پسند ہوتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ فتنہ فساد کی سوجھتی ہے جبکہ خاموشی پسند کرنے والے فطرتاً امن پسند ہوتے ہیں۔ اس شوہر کی ازدواجی زندگی کبھی ناکام نہیں ہوسکتی جو مزاجاً خاموشی پسند ہو، چاہے اس کی بیوی کتنی ہی جھگڑالو کیوں نہ ہو، کیونکہ خیر کی قوت بالآخر شر کی قوت پر غالب ہی آتی ہے۔ اسی لئے تو غالبؔ نے کہا تھا:
ایک ’’خاموشی‘‘ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
ادب میں جو لوگ ڈھول تاشوں، اخباری کالموں، تصویروں،مشاعروں، ٹیلی ویژن اور ریڈیو پروگراموں کے پُرشور بیک گراؤنڈ میوزک کے ساتھ آتے ہیں، داد و تحسین کی سطحی تالیاں سمیٹ کر جلد ہی مطلع ادب سے رخصت ہوجاتے ہیں مگر خاموشی سے کام کرنے والے آخری دم تک کام کرتے رہتے ہیں بلکہ آنے والی صدیوں میں بھی کاغذ پر چلتے ہوئے ان کے کلکِ گوہریں کی سرگوشی برابر سنائی دیتی رہتی ہے۔ گریرسن نے ہندوستان کی زبانوں پر عمر بھر کام کیا اور آخری دن تک کام کرتا رہا۔ جب اس کی ۸۰ویں سالگرہ کے موقعہ پر لوگ اسے مبارکباد دینے کے لئے اس کے گھر گئے تو دیکھا کہ وہ خاموشی سے میز کے قریب بیٹھا تھا۔ چاروں طرف کتابیں بکھری ہوئی تھیں اور وہ اپنے کام میں کھویا ہوا تھا۔ جب اسے مبارکباد دی گئی تو اس نے حیران ہو کر کہا:
’’ارے اسّی برس گزر گئے اور مجھے پتا ہی نہ چلا‘‘۔
***

نقاب

نقاب

حیدربھید جہاں کے جیسے خواب کے اندر خواب
ایک   نقاب    اگر    اُلٹیں   تو   آگے   اور  نقاب
 
 اگلے روز ایک شاپنگ سنٹر پر خریداری کرتے ہوئے میری دو واقف خواتین سے ملاقات ہوئی تو مجھے پہلی بار ایک حیرت انگیز حقیقت سے آشنائی ہوئی۔ ان میں سے ایک خاتون خاصی خوبصورت تھی اور ایک نہایت بدصورت لیکن برقع پہننے کا انداز اور آدھے نقاب کاکمال تھا کہ خوبصورت خاتون تو پہلے سے بڑھ کر خوبصورت لگ رہی تھی، بدصورت خاتون بھی حیرت انگیز طور پر خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔ تب میں نے پہلی دفعہ نقاب کے بارے میں غور کیا تو مجھ پر منکشف ہوا کہ نقاب نہ صرف حسن کو مزید نکھارتا ہے بلکہ عیوب کوڈھانپ کر ان میں بھی ایک حسن پیدا کردیتا ہے۔ مزید غور کرنے پرمجھے انسانی ذہن اور خواتین کے نقاب کے ارتقا کی کہانیاں ایک دوسرے سے مربوط نظر آنے لگیں۔
۔۔۔ ۔شٹل کاک برقع اس دور کی بات ہے جب انسان خود کو اور کائناتی رموز کو جاننے کے لئے سرگرداں ہونے لگا تھا۔ پھر جب ریشمیں برقع پورے نقاب کے ساتھ آیا تو گویا انسان(ایک حد تک) اپنی ذات اور کائنات کی گتّھیاں جان چکا تھا اور انہیں سلجھانے میں مشغول تھا۔ ریشمیں برقع پورے نقاب سے آدھے نقاب تک آیا تو انسان بھی حیرت انگیز انکشافات اور ایجادات کے دور میں آگیا۔ جوں جوں خواتین کا نقاب ارتقا کے مزید مرحلے طے کرتا جائے گا انسانی ذہن بھی اپنی اور کائناتی دریافت کے عمل میں اسی رفتار سے آگے بڑھتا جائے گا۔
۔۔۔۔ ویسے دنیا میں ہر شخص نے نقاب اوڑھ رکھا ہے۔ تاجر، ادیب، ملا، پنڈت، افسر، ملازم، دوکاندار، خریدار، سیاستدان۔ کیا یہ سب لوگ بظاہرجیسے نظر آتے ہیں حقیقتاً ویسے ہیں؟ یہ سب لوگ محبت،خلوص، ایمان اور سچائی وغیرہ کے نقاب اوڑھ کر نفرت، ریاکاری اور جھوٹ کے کھیل کھیلتے ہیں لیکن ان کے نقابوں نے ان کے عیوب کو ڈھانپ رکھا ہے۔
۔۔۔ ۔انسانی چہرہ بجائے خود ایک نقاب ہے جس میں سے کبھی کبھی اس کے اندر کا حیوان جھانکتا ہوا نظر بھی آجاتا ہے۔ اندر کا فرشتہ تو اکثر چہرے پر ہی ملتا ہے۔ کون ہے جو کسی دوسرے انسان کو پوری طرح جاننے کا دعویٰ کرسکے۔ انسان دوسروں کے لئے تو نقاب میں ہے ہی۔ خود اپنے لئے بھی وہ نقاب میں ہے۔ کوئی انسان آج تک خود کوپوری طرح نہیں دیکھ سکا، نہ ہی تاحال کوئی ایسا آئینہ دریافت ہو سکا ہے جو انسان کے اندر کے سارے بھید اس پر کھول سکے۔ اسی لئے تو سلطان باہوؒ نے کہا ہے
:
دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ہوُ
سطح سمندر کا پانی بھی دراصل ایک نقاب ہے جس نے اس کے اندر کی ایک پوری آباد دنیا کو چھپا رکھا ہے۔ پھر یہ دھرتی بھی ایک نقاب ہے جس کے اندر چھپے ہوئے پُر اسرار خزانے تمام تر معدنی اور آتش فشانی دریافتوں کے باوجود ابھی تک نقاب میں ہیں۔ اس سے بھی آگے دیکھیں تو یہ پوری کائنات ہی ایک نقاب ہے جس کے عقب میں خالقِ کائنات کا مسکراتا ہوا،اَن دیکھا حسن ہے۔ اس کائناتی نقاب سے جھانکتے ہوئے چاند،سورج، کہکشائیں اور کروڑوں بلکہ اربوں کھربوں ستارے، اسی نقاب کے عقب میں موجود ازلی حسن کی ہلکی سی جھلک دکھاکر ہمیں بے تاب کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اگر ساری کائنات بنانے کے ساتھ ایسا نقاب نہ اوڑھا ہوتا تو اس کی تلاش اور جستجو کا وہ سفر پھر کہاں ہوتا جو بڑے بڑے سادھو اور صوفی ہزاروں برسوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ گویا نقاب ہمیں سکوت اور ٹھہراؤ کی حالت سے اٹھاکر متحرک کرتا ہے۔ تجسّس کی آگ ہمارے سینوں میں بھڑکاکر ہمیں سفر پر روانہ کرتا ہے اور پھر سفر بھی چوتھے کھونٹ کا۔ چنانچہ انسان کی چاند کی طرف اورپھر اس سے بھی آگے کی طر ف کا سفر ہو یا کسی عاشقِ صادق کا آدھے نقاب والے محبوب کے تعاقب میں اس کے گھر کا سفر ہو، سب اسی چوتھے کھونٹ کے سفر کی داستانیں ہیں۔
۔۔۔۔نقاب معلوم کے جہنم اور نامعلوم کی جنت کے درمیان عالمِ برزخ ہے۔ نقاب کی پُراسراریت ہمارے تجسّس کو بڑھاتی ہے۔ نقاب اوڑھنے والا خود ہی سب کو نہیں دیکھ رہا ہوتا، دوسرے بھی اس کی موجودگی کا لطیف احساس رکھتے ہیں لیکن موجودگی کے اس احساس کی لطافت اس اسرار کے ساتھ بندھی ہوتی ہے کہ وہ نقاب کے باعث دکھائی دے کر بھی دکھائی نہیں دے رہا ہوتا۔’’ہونے‘‘’’نہ ہونے‘‘ کی یہ لذّت صرف نقاب کی بدولت ممکن ہے۔ اگر ہر شے بے نقاب ہوتی تو کسی شے میں کوئی جاذبیت نہ رہتی۔ ہر شے معلوم، دیکھی بھالی، جانی پہچانی ہوتی تو ہم پر یکسانیت، بے زاری اور اُکتاہٹ طاری کردیتی۔ لیکن یہاں تو نقاب درنقاب سلسلے ہیں۔ کسی شے یا شخصیت کا ایک نقاب ہٹائیں تو اندرسے ایک اور جہانِ حیرت ایک اور نقاب سے جھانکتا نظر آئیگا۔ پھر اس نقاب کو ہٹائیں تو ایک اور نقاب اور ایک اور جہانِ حیرت و تجسّس! اسی لئے ادب میں معلوم کی دریافت ایک احمقانہ فعل ہے یا کم از کم سطحی عمل ہے جبکہ نامعلوم کی دریافت ہی اصل تخلیقی سچائی ہے۔
۔۔۔ ۔انسانی جسم بھی ایک نقاب ہے جسے روح نے اوڑھ رکھا ہے۔ روح جسم سے نکل کر فنا نہیں ہوتی بلکہ موت کا نقاب اوڑھ کر اس میں زندگی بن کے دھڑکنے لگتی ہے۔ زمانے کی ماہئیت پر سنجیدگی سے غور کریں تو ماضی سے مستقبل تک زمانہ نقاب اوڑھے نظر آتا ہے۔ مستقبل کے پورے مگر باریک نقاب میں سے ہرلحظہ جھانکتا ہوا’’حال‘‘ پلک جھپکتے ہی ماضی کے آدھے نقاب کی اوٹ میں چلاجاتا ہے اور ہم اس لمحے کو چھونے کی،پوری طرح دیکھنے کی خواہش دل میں ہی لئے رہ جاتے ہیں۔
۔۔۔ ۔ڈپلومیسی کا نقاب آج کل بہت عام ہے۔ عام زندگی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر شعبۂ حیات میں اس نقاب کو بے حد پسند کیا جارہا ہے۔ اس کے رواج سے پرتکلف اخلاقیات کا فروغ ہو رہا ہے۔ بعض سر پھرے اسے منافقت قرار دیتے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ نقصان سر پھروں کا ہی ہوتا ہے۔خوشامد اور چاپلوسی کا نقاب اوڑھ کر لوگ بڑے بگڑے کام بھی ٹھیک کرالیتے ہیں۔ یہ ایسا خوبصورت اور دلآویز نقاب ہے جو کسی بھی طرح کے بڑے سے بڑے اور اصول پرست رہنما کو بھی مغلوب کرلیتا ہے۔
۔۔۔۔ دبیز نقاب جب کسی معقول انسان کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ عاشقِ زار بن کر محلے کے شرفا کے لئے متعدد مسائل پیدا کردیتا ہے لیکن جب یہی نقاب کسی ادیب کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ بے سر و پا نظمیں یا مضمون نما خط قسم کی چیزیں لکھ کر اپنے آپ میں ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔
شاید نفسیاتی مسئلہ!
***

وِگ

وِگ

یہ  بال و پر  تو  چلو  آگئے  نئے  حیدرؔ

بلا سے پہلے سے وہ خال اور خد نہ رہے

   
جب سے میں نے ہوش سنبھالا تب سے ہی دیکھا کہ اباجی کے سرپر بال نہیں تھے۔ بچپن سے ہی میری شدید خواہش رہی کہ اباجی کے سر پر بال سجے ہوئے دیکھوں۔ اس کی دو ممکنہ صورتیں تھیںیا تو کوئی ایسی دوا مل جائے جس سے بال دوبارہ اُگ آئیں یا پھر وِگ سجالی جائے۔ تب وگ خریدنے کے وسائل میسّر نہیں تھے پھر بھی میں نے ایک بار اباجی سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو وہ مسکرا کر رہ گئے۔ اور بس!۔وسائل میسّر آنے سے پہلے اباجی فوت ہوگئے۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی یہ انوکھا سا واقعہ رونما ہوا کہ دنیائے فانی سے کوچ کرنے کے بعد اباجی میرے اندر آن بسے۔ دل میں، لہومیں، روم روم میں بس گئے یہاں تک کہ میرے سر پر بھی پوری طرح نمودار ہوگئے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ واقعی ہمارا باہر بھی ہمارے اندر کا ایک حصہ ہے۔ اباجی کی محبت نے جب میرے اندر اور باہر پر پوری طرح غلبہ کرکے مجھے تصوف کے مقام فنائیت تک پہنچادیا تب میں، میں نہ رہا۔ میں نے آئینہ دیکھا تو ایسے لگا جیسے بیس برس پہلے کے اباجی کو دیکھ رہا ہوں۔ سر سے پاؤں تک وہی صورت۔ پھر میں نے مقام فنا سے مقام بقا کا رُخ اختیار کرنے کا سوچا۔ دراصل اب ہمہ وقت اباجی سے ہی ملاقات ہوتی رہتی تھی اور اپنے آپ سے ملنے کی صورت ہی نہیں بن رہی تھی۔ تب اپنے آپ سے ملنے کی خواہش نے جوش دکھایا:
چلو اپنی بھی جانب اب چلیں ہم
یہ رستہ دیر سے سُونا پڑا ہے
۔۔۔۔سو میں نے ایک مناسب سی وگ خریدی۔ اپنے مخصوص(مگر گمشدہ) ہیراسٹائل کے مطابق اسے برش کرکے سر پر سجالیا۔ وگ کا سر پر سجانا تھا کہ میکدے سے میری جوانی خود ہی اٹھ کر میرے پاس آگئی۔ اپنی جانب کا ویران راستہ رونقوں سے بھرگیا۔ زندگی کا میلہ سا لگ گیا مجھے احساس ہوا کہ میں بیالیس برس کی عمر میں بلاوجہ باون برس کا بنا ہوا تھا۔ وگ کے بغیر میں اپنی عمر سے کہیں آگے نکل گیاتھا۔ وگ نے مجھے میری اصل عمر عطاکردی۔ وگ پہن کے پہلے پہل آئنہ دیکھا تو ایسے لگا کہ کسی ایسے اجنبی مہمان سے مل رہاہوں جس نے میرے گھر میں آکر میرا ہی لباس زیب تن کررکھا ہے لیکن’’خود کو پہچان‘‘ والا فرمان یاد آیا تو اپنی معرفت کے مرحلے طے ہونے لگے۔ اپنے آپ سے ملاقات ہونے لگی۔
۔۔۔۔کسی سیلاب یاطوفان کے آنے کے بعد جب کوئی ہنستا بستا شہر ویران اور بربادہوجاتا ہے تب باہمت اور جرأت مند لوگ اسے از سر نو آباد کرکے پہلے سے بھی خوبصورت بنادیتے ہیں جبکہ کاہل اور نکمّے لوگ عرصہ دراز تک خیمے بناکر گزارا کرتے ہیں۔ اسی طرح وقت کا بے رحم طوفان کئی انسانی سروں پر تباہی پھیلا کر ان کی اصل صورت کو بگاڑ دیتا ہے۔ وِگ نہ صرف اسی تباہی کا تدارک کرتی ہے بلکہ انسان کو اس کی اصلی صورت بھی عطا کردیتی ہے۔ وِگ پہننے والے لوگ وہ باہمت اور جرأت مند لوگ ہیں جو وقت کی پھیلائی ہوئی تباہی سے پھر نئی تعمیر کرتے ہیں جبکہ ٹوپی پہن کر گزارہ کرنے والے لوگ خیموں میں پناہ لینے والوں جیسے ہیں۔
۔۔۔ سیاہ رات اس دنیائے موجود کے سر پر ’’زُلف دراز‘‘والی وگ ہے۔ آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے اس زُلف پر گرے ہوئے شبنمی موتی ہیں، کہکشاں اس کی مانگ میں بھری ہوئی افشاں ہے اور چاند ایک خوبصورت سنہری کلپ۔ یہ دنیائے موجود،رات بھر کسی محبوبۂ دلنواز کی طرح اپنی زلفوں کی مہک بکھیرتی ہے لیکن دن ہوتے ہی سورج کی تپش سے گھبراکر اس وگ کو اُتار کر رکھ دیتی ہے۔ وگ میں یہ سہولت ہے کہ آپ جب چاہیں وگ پہن کر اپنی اصل صورت دیکھ لیں اور جب چاہیں وگ کو اتار کر قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ کرلیں۔
۔۔۔ ۔ہرے بھرے کھیت، باغات اور جنگلات بہار کے موسم میں خوبصورت وگیں پہن کر اپنی اصل صورت دکھاتے ہیں لیکن خزاں کسی حاسد کی طرح اُن وگوں پر طنز کرتے ہوئے آتی ہے اور اپنے ہاتھوں سے ان سب کی وگیں اتارتی اور اُدھیڑتی چلی جاتی ہے۔ پھر ایک شیطانی قہقہہ لگا کر کہتی ہے: یہ باغات، جنگلات اور کھیت سب جھوٹ تھے۔ ان سب نے بھیس بدل کر انسانوں کو دھوکہ دیاتھا انہیں بہار کا غلام بنانے کی سازش کی تھی۔ اب اُن کا اصلی روپ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ تمام انسان اُن کا اصلی روپ دیکھ لیں اور باربار جان لیں کہ یہ بہار ایک دھوکہ ہے۔ زندگی کی حقیقت فنا ہے۔ خزاں اسی سچائی کو پھیلانے کے لئے قدرت کی طرف سے مقرر کی گئی ہے۔ وقتی طور پر خزاں کی نحوست اپنا اثر دکھاتی ہے۔ اسی دوران بہار پھر اپنے کھوئے ہوئے وقت کو واپس لانے کے لئے اندر ہی اند کام کرتی رہتی ہے۔ چنانچہ جیسے ہی خزاں کی نحوست زائل ہونے لگتی ہے بہار پھر سارے کھیتوں، باغات اور جنگلات کے سروں پر ہریالی کی نئی وگیں سجادیتی ہے۔ پھولوں کا مسکرانا، پرندوں کا چہچہانا، تتلیوں کا آنا، بھنوروں کا منڈلانا۔ زندگی کا میلہ پھر سے لگ جاتا ہے۔
خزاں کے ہمنوا بعض دل جلے بھی وگ پہننے کو بھیس بدلنے یا بہروپ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن وگ پر بہروپ کا الزام بہتان ہے۔ یہ تو ایک ایسی سیدھی سادی سچائی ہے جو انسان کو اس کے اصل روپ میں پیش کرتی ہے۔ کوئی اس سچائی کو مانے نہ مانے یہ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اس کے برعکس بہروپ تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر کے شیطان کو مہارت کے ساتھ چھپا کر باہر فرشتہ بناپھرے۔ مایالگی ہوئی پگڑی کا اکڑا ہوا طرّہ، تکبر کی ماری اکڑی ہوئی گردن، ریاکاری، کی لمبی داڑھی اور نفیس جبّہ۔ یہ جبّہ و دستار بہروپ ہے۔ ایسے بہروپیوں کا یہ سازوسامان اُتارلیا جائے تو نیچے سے ن۔م۔راشد کا لا236انسان برآمد ہوگا۔ جبّہ و دستار کا بہروپ تو خلقِ خدا کو گمراہ کرنے اورغلام بنانے کا ڈھونگ ہے جبکہ اس کے برعکس وِگ اس فکری آزادی کا اعلامیہ ہے جو غلامی سے نجات دلائے۔
۔۔۔۔وہ لیڈر بہروپیے ہیں جو عوام کی فلاح کے دعوے کرتے ہیں اور عملاً عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی بہروپیے ہیں جو مغربی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لئے ایسے ایسے من گھڑت اور جھوٹے بیانات دیتے ہیں کہ گوئبلز کی روح بھی شرما جائے اور اپنے تمام جھوٹے بیانات کے باوجود سچائی کے علمبردار ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ ادب میں بھی ایسے کئی بہروپیے پائے جاتے ہیں۔ کسی مالدار ادیب سے دو لاکھ روپے کھا کر اسے ۲۵ہزار روپے کا انعام دلانے والے، مناسب حق الخدمت کے طور پر کسی لولے لنگڑے افسانے کو دور حاضر کا ممتاز ترین افسانہ قرار دینے والے، کمپیوٹر کے عہد کی مناسبت سے کمپیوٹر کی قیمت پر مدح سرائی کرنے والے، ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر غریب مزدوروں اور کسانوں کی حمایت میں ادب لکھنے والے، اصل بہروپیے تو اس قماش کے لوگ ہیں جبکہ وِگ کیرلین پراسیس کے بیان کردہ گم شدہ حصے کی دریافت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ وِگ کا جہان بہروپیوں سے یکسر مختلف ہے۔ وِگ پر بہروپ کاالزام عائد کرنے والے حقیقتاً خود بہروپیے ہیں جو اپنے بہروپ کا بھرم قائم رکھنے کے لئے وِگ کی اہانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وِگ پہننا اپنے گم شدہ حصے کی بازیافت کا عمل ہے جس کے بغیر اپنی پہچان اور اپنے عرفان کے مرحلے طے نہیں ہوسکتے۔
۔۔۔۔ یہاں تک لکھنے کے بعد میں نے ایک بار پھر آئینے میں خود کو دیکھا تو مجھے ایسے لگا کہ اباجی میرے سامنے کھڑے ہیں۔ اُن کے سر پر گھنے اور خوبصورت بال سجے ہوئے ہیں جنہیں سلیقے سے سیٹ کیاگیا ہے۔ اسی لمحے مجھے محسوس ہوا کہ میری بچپن کی وہ آرزو پوری ہوگئی ہے کہ کبھی اباجی کے سر پر بھی بال سجے ہوئے دیکھ سکوں۔ تب ہی مجھ پر منکشف ہوا کہ اباجی میرے اندر کی طرح باہر بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے وِگ سے پہلے موجود تھے، اس فرق کے ساتھ کہ میں ان کی عمر کا جو زمانہ نہیں دیکھ سکا تھا اب مجھے وہ زمانہ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ میں آئینے میں اباجی کو دیکھ کر مسکرایا تو وہ بھی مسکرادیئے۔
انکشافِ ذات کا یہ نظارہ وِگ سے سر افراز ہوئے بغیر کہاں ممکن تھا
!
***

فاصلے، قربتیں

فاصلے، قربتیں

جب سرکار کی جانب سے منظوری ہوتی ہے
فاصلہ   کتنا  بھی  ہو عین حضوری ہوتی ہے

        مجھے سرسبز و شاداب پہاڑ ہمیشہ اچھے لگتے رہے ہیں۔ اُن کی بلند قامتی، شادابی اور ہریالی سے مجھے انوکھی سی روحانی آسودگی کا احساس ہوتا رہااور میں من ہی من میں ان کی عظمت کا معترف رہا۔ لیکن جب ایک بار مجھے ایسے ہی ایک پہاڑ کی چوٹی پر جانے کا شوق چرایا اور میں اس سفر پر روانہ ہوا تو میرے پہلے تصوّر کو شدید ٹھیس پہنچی۔ میں نے دیکھا کہ دور سے اتنا عظیم دکھائی دینے والا پہاڑ ایسے خوفناک ٹیڑھے میڑھے رستوں اور ہولناک کھائیوں سے بھرا ہواتھا جو سیدھا موت کے منہ میں لے جانے والی تھیں۔ اس کا دامن خونخوار جانوروں سے بھرا ہواتھا۔ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر میں نے نیچے دیکھا تو اچھے بھلے انسان، بڑی بڑی عمارتیں، گاڑیاں وغیرہ مجھے بہت ہی معمولی اور چھوٹے چھوٹے کھلونوں کی طرح دکھائی دیئے۔ بے معنی اور حقیر۔! تب مجھے فاصلے کا کمال معلوم ہوا جس نے پہاڑ کے اندر کے ولن کو چھپاکر اسے ہیرو کے روپ میں پیش کررکھاتھا۔ تب ہی مجھے اندازہ ہوا کہ بڑے بڑے عظیم لوگ، پہاڑ جیسے عظیم لوگ۔ اکثر محض اس لئے عظیم لگتے ہیں کیونکہ ہم انہیں فاصلے سے دیکھتے ہیں۔ اپنی نام نہاد عظمت کی بلندی سے انہیں اچھے بھلے انسان اور بڑی بڑی چیزیں بھی حقیر سی دکھائی دیتی ہیں۔ فاصلے اور بلندی کے اس تماشے کی حقیقت کو سمجھنے کی بجائے ایسے’’عظیم لوگ‘‘ سچ مچ اپنی عظمت کے خبط میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ انہیں قریب سے دیکھ لیتے ہیں اُن پر اُن کی عظمت سے زیادہ اُن کی شخصیت کے مخفی جوہر کھل جاتے ہیں اس لئے وہ ان کی عظمت کے منکر ہوجاتے ہیں۔ ایسے منکرین کے ساتھ پھر کیا سلوک کیاجاتا ہے یہ ایک الگ داستان ہے بلکہ داستانوں کا ایک سلسلہ ہے جس سے تاریخِ انسانیت بھری پڑی ہے۔
طویل فاصلے سے سورج جیسے چمکتے ہوئے لوگ، اپنے اندر سورج سے بھی زیادہ بڑا جہنم آباد کئے بیٹھے ہوتے ہیں یہ الگ بات کہ فاصلے پر بٹھائے ہوئے لوگوں کے لئے جنت کی بشارتیں نشر کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی ایسی بشارتوں پر شک کرنے لگے تو اس کی زندگی کو ہی جہنم بنادیاجاتا ہے۔ فاصلے اور قربت کی کرشمہ سازی کے انکشاف کے بعد مجھے فاصلے اور قربت کے کئی رنگ اور کئی روپ دکھائی دینے لگے۔
۔۔۔۔قربت کی انتہا یکتائی ہے جبکہ فاصلے کی ابتدا سے فرقِ من و تو پیدا ہوتا ہے۔ قربت محبت اور عقیدت کا ثمر ہے اس لئے دل کے زیرِ اثر ہے۔ عقل و شعور سے اس کا معاملہ بس واجبی سا ہوتا ہے۔ فرقِ من و تو، شعور و آگہی کا پہلا سبق ہے( باقی کے سارے سبق اسی فرق کی تشریح اور تفسیر ہیں) اس لئے فاصلے کو عقل و شعور کے زیرِ اثر سمجھا جاسکتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قربت آتشِ نمرود یاآتشِ محبت میں بے خطر کود پڑنے کا نام ہے جبکہ فاصلہ ہمیشہ محو تماشائے لبِ بام رہتا ہے بلکہ بعض اوقات لبِ بام سے بھی پرے کھڑا ہوتا ہے۔اگر فاصلہ بھی اس آتش میں کود پڑے تو پھر فرقِ من و تو ختم ہو جائے گا، فاصلہ ختم ہوجائے گا بس قربت ہوگی، یکتائی کا عالم ہوگا۔ اسے نیستی یا فنا بھی کہہ سکتے ہیں۔
۔۔۔ ۔تخلیق کے امکانات کو قربت یکجا کرتی ہے اور فاصلہ تخلیقات کے انبار لگاتا چلاجاتا ہے۔ موجودہ کائنات کی تخلیق کا جو سائینسی نظریہ مقبول ہے۔ اس کے مطابق پہلے سارا کائناتی مادہ یک جاتھا گویا قربت کی انتہا تھی۔ یہ مادہ ایک بہت بڑے گولے کی صورت میں تھا جس کے اندر تخلیق کے سارے امکانات موجود تھے۔ بڑے دھماکے(BIG BANG) کے نتیجہ میں جب یہ گولا پھٹا تو فاصلہ پیدا ہونے لگا۔ فرقِ من و تو پیدا ہونے لگا۔ یہ کہکشاں ہے، یہ سورج ہے، یہ سیارے ہیں، انہیں سیاروں میں یہ زمین ہے اور یہ ہماری زمین کا چاند ہے۔ قربت نے ان ساری رونقوں کو اپنے اندر سمیٹ رکھا تھا فاصلے نے انہیں محبت کے زخموں کی نمائش کی طرح باہر لاکر سجادیا۔ فاصلہ اور قربت ایک دوسرے کے لئے اسی طرح لازم و ملزوم ہیں جس طرح ایٹم کا ہر اینٹی پارٹیکل اور پارٹیکل۔ رات اور دِن۔ اہر من اور یزداں۔ اور میری بیوی اور میں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔( میری بیوی اور میرے معاملے میں آپ لازم و ملزوم کی بجائے’’لازم و ملزم‘‘ سمجھیں۔ الزامات کی نوعیت وہی ہے جو یورپ میں ہر شریف شوہر کو اپنی بیوی سے سننا پڑتے ہیں)
۔۔۔ ۔آنکھیں ایک خاص حد تک کی قربت اور ایک خاص حد تک کے فاصلے سے ہی دیکھ سکتی ہیں۔ قدِ آدم آئینے سے بالکل قریب ہو کر کوئی اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھ سکتا۔ خود کو دیکھنے کے لئے بھی تھوڑا سا فاصلہ ضروری ہے۔ تمام فاصلوں کو مٹاتے ہوئے دو جوان دلوں کو شاید اسی لئے اپنے ارد گرد کچھ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وہ قربت کی انتہا تک پہنچ رہے ہوتے ہیں۔ ’’یہ رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی‘‘ کا ایمان افروز منظر ہوتا ہے۔ یارلوگ مشرقی ممالک میں تو اُسی وقت کیدو کا روپ دھارکر اصلاح معاشرہ کا فریضہ اداکرنے لگ جاتے ہیں جبکہ مغربی ممالک میں انہیں ناقابلِ اصلاح سمجھ کر ’’گونگے گواہ‘‘ کی طرح آگے بڑھ جاتے ہیں۔
۔۔۔ ۔فاصلے کے معاملے میں جیومیٹری کے کئی زاویے بھی آڑے آتے ہیں۔ میدانی یا صحرائی علاقے میں آپ ایک خاص حد تک صاف اور پھر مدھم مدھم دیکھ سکتے ہیں۔ بڑے شہروں میں بیس پچیس منزلہ عمارتوں سے دیکھیں تو ارد گرد کا منظر کسی اور ہی روپ میں سامنے آتا ہے ۔پہاڑی علاقے میں بل کھاتے ہوئے، مڑتے ہوئے اونچے نیچے رستے تو قدم قدم پر چونکاتے ہیں۔ ۴۰فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہوا آدمی جس منظر کو صاف طور پر دیکھ رہاہوتا ہے۔ ۲۰فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہوا آدمی محض قریبی موڑ آڑے آنے کی وجہ سے اس منظر کو نہیں دیکھ سکتا۔ کبھی کبھی مجھے ایسے لگتاہے جیسے سارے نظریات ایسے ہی بل کھاتے ہوئے رستوں کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ ۲۰فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہوا جس منظر کا انکار کررہا ہے بظاہر اس کا انکار درست ہے اور ۴۰فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہوا جس منظر کی موجودگی پراصرار کررہا ہے اس کا اصرار بھی سچ ہے۔ مسئلہ تو صرف اتنا ہے کہ دونوں فریق یہ نہیں کرتے کہ اپنی اپنی جگہ پر جم کردوسرے کو جھوٹا قرار دینے کی بجائے خود دوسرے کی جگہ پر جاکر بھی اُس منظر پر ایک نظر ڈال کر دیکھ لیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو نظریاتی سطح پر صرف اپنے گروہ کو سچا اور دوسرے گروہوں کو جھوٹا قرار دینے کا منفی رویہ ختم ہوجائے۔
۔۔۔۔قربت کا ایک رنگ مرد اور عورت کے تعلق سے عبارت ہے۔ اس قربت کے مختلف مراحل ہیں۔ آخری مرحلے کے اختتام پر فاصلہ وجود میں آجاتا ہے:
بے دم ہوں میں اِدھر تو اُدھر وہ نڈھال ہے
۔۔۔۔گویا قربت کی انتہا سے فاصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح فاصلے کی انتہا قربت کو جنم دیتی ہے۔ یہ کوئی فلسفہ نہیں حقیقت ہے۔ اپنی زمین کا نقشہ دیکھ لیں جو علاقے ایک دوسرے کی مخالف سمت، زمین کی آخری انتہاؤں پر واقع ہیں اس حقیقی گلوب میں سب سے زیادہ قریب ہیں۔ بیوی جسمانی طور پر قریب ہوتی ہے لیکن اس کی قربت میں ایک فاصلے کا احساس رہتا ہے۔ جبکہ محبوبہ کتنے ہی جغرافیائی فاصلے پر کیوں نہ ہو اس کے فاصلے میں بھی قربت کی مہک تازہ رہتی ہے۔ فاصلے میں قربت اور قربت میں فاصلہ۔ فاصلے کی انتہا میں قربت اور قربت کی انتہا میں فاصلہ۔
کہیں قربت اور فاصلہ ایک ہی سکّے کے دو رُخ تو نہیں؟

***

بڑھاپے کی حمایت میں

بڑھاپے کی حمایت میں

یہ ڈھلتی عمر بھی شعلے مرے بجھا نہ سکی

لہو   میں   اپنے   ابھی   اشتعال   باقی   ہے

 
پچھلے دنوں مجھ سے بمشکل پانچ سات سال کم عمر کے ایک نوجوان نے مجھے ایک محفل میں انکل کہہ کر مخاطب کیا تو فوری طور پر مجھے اس پر شدید تاؤ آیا۔ کیونکہ عمروں میں پانچ سات برس کا فرق چچا بھتیجے کے مقابلے میں بڑے اور چھوٹے بھائی کا فرق کہلا سکتا ہے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ مجھے مخاطب کرنے والے نے مجھے جس نام سے بھی مخاطب کیا ہے اس میں اس کا خلوص شامل ہے اور مجھے اس کے خلوص کاا حترام کرنا چاہئے۔ اس نوجوان کے خلوص کے احترام کے باوجود یہ وسوسہ میرے ذہن میں گھر کرنے لگا کہ شاید میری جوانی مجھ سے دامن چھڑاتی جارہی ہے اور بڑھاپے نے دبے پاؤں میری طرف آنا شروع کردیا ہے۔میں اسی وسوسے میں گھرا ہوا تھا جب گیان کا ایک حیرت فزا لمحہ مجھ پر اُترا۔۔میں نے زندگی کے تینوں زمانوں۔بچپن،جوانی اور بڑھاپے کو اس گیان کی روشنی میں دیکھا تو بڑھاپا مجھے سب سے اعلیٰ، ارفع اور برتر نظر آنے لگا۔
بچپن انسان کے گزرے ہوئے ماضی بعید کی طرح اپنے خاندان سے چمٹے رہنے میں عافیت محسوس کرنے کاعہد ہے۔ ماضی کا ابتدائی انسان بھی اسی طرح زمین سے پیوست اور اپنے معاشرے سے چمٹا ہوتا تھا۔ جوانی حال مست رہنے کا عہد ہے جس طرح ہم اپنے حال میں رہ کر اپنے حال سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ایسے ہی جوانی میں بھی اپنے آپ سے بے خبری کا عجیب عالم ہوتا ہے۔ لیکن بڑھاپا مستقبل کی طرح یقین اور بے یقینی کی دھند میں لپٹاہوا عالم برزخ ہے۔ یہاں سے آگے انسان کے ماورائے زمان و مکان ہونے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ بڑھاپے کے عالمِ برزخ میں انسان ماورائے مکان ہونے کے لئے اپنے سارے مکان کو چھوڑ کر ایک چھوٹے سے کمرے میں سمٹ آتا ہے( یا سمیٹ دیاجاتا ہے)۔ پھر یہاں آکر اس کے نزدیک سارا زمانہ ہی بے وقعت ہوجاتا ہے کیونکہ بوڑھے آدمی کو اس سے کوئی غرض ہی نہیں ہوتی کہ ناشتہ دوپہر کو دیاگیا اور دوپہر کا کھانا شام کو ملا اور شام کا کھانا ملا ہی نہیں۔ بڑھاپا اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ زمان و مکان کی رہی سہی برائے نام حدود کو توڑ کر ایک طرف تو پوری طرح ماورائے زمان و مکان ہوجاتا ہے اور دوسری طرف زمان کے رگ و پے میں سرایت کرکے مکان پر قابض رہتا ہے۔ اس کی اولاد، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں، ماضی، حال اور مستقبل کے روپ دھارے اس کے نہ ہونے کے باوجود اس کے ہونے کی گواہی بنے رہتے ہیں۔
۔۔ ۔۔بچپن میں ہم جوانوں کو دیکھ کر جوان ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن جوان ہوتے ہی بچپن کو یاد کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس جوانی میں ہم آنے والے بڑھاپے کے تصوّر سے ہی خوف کھاتے ہیں۔ لیکن بڑھاپا آتے ہی ہم پر فکر و دانش کے ایسے انوار برستے ہیں کہ نہ صرف بڑھاپے سے سارا خوف دور ہوجاتا ہے بلکہ ہماری زندگی میں ہی بڑھاپا ہمیں بچپن اور جوانی ہمارے بیٹوں اور پوتوں کی صورت میں دکھادیتا ہے۔ بعض لوگ اپنے بڑھاپے میں اپنی جوانی کو اپنے بیٹے کے روپ میں دیکھنے کی بجائے خود جوان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نیک مقصد میں کامیابی کے لئے مخصوص قسم کے حکیموں اور ڈاکٹروں کی چوکھٹوں پر حاضری دیتے ہیں۔ ایسے بوڑھوں کے بڑھاپے کے بارے میں غالبؔ نے کہا تھا:
مضمحل ہوگئے قویٰ غالبؔ
شرم  تم  کو مگر  نہیں  آتی
۔۔ ۔۔بچپن معصومیت سے عبارت ہے۔ جوانی حیرت و تجسس سے، جبکہ بڑھاپا فکر و دانش کے انوار کے ساتھ معصومیت اور حیرت و تجسّس کو بھی اپنے جلو میں لیے ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال لیجئے کہ مقامِ نبوّت سے سرفراز کئے جانے کے باوجود کس معصومیت کے ساتھ اللہ میاں سے بالمشافہ ملاقات کے متمنّی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ باربار سمجھاتے رہے اور فرماتے رہے ’’لن ترانی‘‘۔ لیکن یہی ارشاد ان کے تجسّس کو بڑھاتا ہے اور پھر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔پھر معصومیت اور حیرت و تجسّس کایہ امتزاج اُن کی فکر و دانش میں ایک انوکھی روحانی لذت بھردیتاہے۔ بڑھاپے اور فکر و دانش کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اکثر انبیاء علیہم السلام کو پیغمبری چالیس سال کی عمر میں عطا ہوئی۔ فی زمانہ متعدد ممالک کے constitutions میں سربراہِ مملکت کے لئے عمر کی کم از کم حد چالیس سال رکھی گئی ہے۔۔۔۔جبکہ چالیسواں سال بڑھاپے کا نقطہ ءِ آغاز ہے۔
۔۔ ۔۔بڑھاپا بزرگی اور متانت عطا کرنے کے ساتھ زندگی کے تجربات کا نچوڑ نکال کر ایک رہنما کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ بڑھاپے میں گرگِ ظالم بھی پرہیزگار بن جاتا ہے اور یہ پرہیزگاری اسے قویٰ کے اضمحلال اور زندگی کے تجربات کے نچوڑ کے بعد نصیب ہوتی ہے۔(آفرین ہے ان بزرگوں پر جو ستر سال کی عمر کے بعد بھی جوان لڑکیوں سے شادی کرنے کی جرأت رکھتے ہیں اور یوں سرِ عام گرگ ظالم کی پرہیزگاری کو بھی شرمسار کردیتے ہیں۔ خواہ ایسے جرأت مندانہ اقدام کے نتیجہ میں جان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونا پڑیں۔)
۔۔۔ ۔بچپن ایسا زمانہ ہے جس میں غیر محسوس طریقے سے بخارات اٹھتے رہتے ہیں۔جوانی میں یہ بخارات گہرے بادلوں کا روپ دھارلیتے ہیں۔ ایسے بادل جن میں گرج بھی ہوتی ہے اور چمک بھی۔ پھر یہ موسلادھار بارش بن جاتے ہیں۔ بڑھاپا بارش کے بعد قوس قزح کا منظرپیش کرتا ہے۔ زندگی کے تجربوں کی دھوپ سے ہفت رنگ عکس اُبھرتا ہے اور ایک حسین منظر بن جاتا ہے۔ گردو غبار دُھل جاتا ہے۔ چاروں طرف تازگی اور ہریالی کا سماں ہوتا ہے۔ ہلکی ہلکی اور ٹھنڈی میٹھی ہوا انسان کو وہ آرام و سکون بخشتی ہے جو بخارات اٹھنے کے عمل یا موسلادھار بارش کے دوران ہرگز نصیب نہیں ہوسکتا۔
۔۔۔ ۔انسانی بڑھاپے میں مر د اور عورت کی تفریق فطری طور پر قائم رہتی ہے ۔ بڑھاپے کے باعث بوڑھی عورت کا سر ہمیشہ اثباتی انداز میں ہلنے لگتا ہے اور بوڑھے مرد کو اپنی زلیخا سے یہ پوچھنے کی نوبت ہی نہیں آتی کہ اس کا سر کیوں ہل رہا ہے کیونکہ جواباً اس کا اپنا سر منفی انداز میں ہلنا شروع ہوچکاہوتا ہے۔
۔۔۔ ۔انسان بچپن میں ضدی ہوتا ہے اور جوانی میں باغی۔ لیکن بڑھاپے میں ضد اور بغاوت دونوں سے دامن چھڑا کر خود سپردگی اور راضی بہ رضا کے صوفیانہ مقام پر فائز ہوجاتا ہے۔ اولاد جتنی گستاخ ، بے ادب اور بے پرواہ ہوگی انسان اس صوفیانہ مقام میں اتنا ہی ترقی کرتا جائے گا اور آخرکار اس مقام لاہوت تک جاپہنچے گا جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر وہ اپنی اولاد کو بھی خودسے متعلق ہرجھنجھٹ سے آزاد کردیتا ہے اور خود بھی آسودگی کی انتہاؤں کو چھولیتا ہے۔
۔۔۔ ۔مغرب میں چونکہ کمپیوٹرازم فروغ پارہا ہے اس لئے انہوں نے مقام لاہوت تک جلدی پہنچنے کے لئے ’’بوڑھوں کے لئے خودکشی کے آسان طریقے‘‘ اور ’’....آرام دہ طریقے‘‘ قسم کی کتابیں چھاپ کر بوڑھوں کے لئے بہت سی سہولتیں پیدا کردی ہیں۔
۔۔۔ ۔بڑھاپے کی ان فضیلتوں اور فیوض کے منکشف ہونے کے بعد میں نے جب اپنی عمر پر دوبارہ غور کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں تو ایک برتر مقام پر فائز ہونے والا ہوں۔ اس احساس کے ساتھ جب میں نے سوچا کہ چالیسویں برس تک پہنچنے کے لئے ابھی سات برس مزید انتظار کرنا ہے تو مجھے یہ سات برس اب پہاڑ کی طرح محسوس ہونے لگے ہیں۔

***

اطاعت گزاری

اطاعت گزاری

آخر لکیر  اپنے فقیروں   کو کھاگئی

بس اک فقیر بچ گیا ہٹ کر لکیر سے


  میرے ایک جوشیلے لیکن کم فہم دوست کا خیال ہے کہ اطاعت کا مادہ افراد اور قوموں کو فکری لحاظ سے بانجھ اور اپاہج بنا دیتا ہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ غلامی کی قدیم روایت نے آج کے مہذب دور میں اطاعت گزاری کی مہذّب صورت اختیار کرلی ہے۔ اطاعت گزاری کو ایک اعلیٰ خوبی کے طور پر پیش کرکے افراد اور قوموں کو اس کے جال میں پھنسا کر غلام بنایا جاتا ہے۔ میں نے اس وقت تو دوست کی بات میں بڑا وزن محسوس کیا لیکن بعد میں جب غور کیا تو مجھ پر لمحہ بہ لمحہ اطاعت گزاری کی برکات منکشف ہوتی گئیں۔
عام حالات میں اطاعت گزاری کا مادہ ہزار نعمت کے برابر ہے جبکہ تنگ دستی کی حالت میں تولاکھ نعمت سے بھی بڑھ کر ہے۔ سچے اطاعت گزار اپنے آقایا ممدوح کی بات کبھی رد نہیں کرتے خواہ ظاہراً وہ بات کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو۔ کیونکہ وہ ظاہر بین نہیں بلکہ باطن بین ہوتے ہیں۔ اپنے اندر کی تیز فراست کے باعث انہیں یہ بھید معلوم ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ کسی سورج یا چاند کے نہیں، اپنے آقا کے اطاعت گزار ہیں۔
۔۔۔۔اطاعت گزاری، فرماں برداری اور وفا شعاری ایک ہی حقیقت کے مختلف چہرے ہیں ۔ اطاعت کا مادہ انسانی نفس کو سنگسار کرکے اس کی روح اور ذہن کو ہر طرح سے سبکسار کردیتا ہے، گویا اطاعت سے مراحلِ تصوّف کا آغاز ہوتا ہے اور کمال اطاعت تک وہ کامل صوفی بن جاتا ہے۔ دنیا کی لعنت ملامت یا اپنے ضمیر کی طعنہ زنی اسے اطاعت سے نہیں روک سکتی۔ کوئی عاشق اس وقت تک سچا اور کامیاب عاشق نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی وفا کے جوہر کو محبوب کی کامل اطاعت کے مقام تک نہ پہنچا دے۔ اسی لئے سچا عاشق اطاعت کی ایک ہی جست سے عشق کے سارے مرحلے طے کرکے فارغ ہوجاتا ہے۔
۔۔۔ ۔تجریدی تصویر کی طرح اطاعت گزاری بھی تہ در تہ نتائج(معانی) کی حامل ہے۔ آپ نے بڑے افسر کی اطاعت کی تو اس کے منظورِ نظر بن گئے۔ بڑے افسر کے منظورِ نظر بنتے ہی ماتحت عملہ کے اطاعت گزاروں کی ایک فوج آپ کے زیرِ نگیں آگئی۔ گویا افسروں کی اطاعت کرنے والوں کو بھی ایک افسری نصیب ہوجاتی ہے۔ آمروں کی اطاعت کرنے والوں کو اسی طرح ایک قسم کی آمریت مل جاتی ہے۔ یہ سلسلہ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر تک مسلسل جاری و ساری رہتا ہے۔ اطاعت گزاری ایک طرف حاکمِ اعلیٰ کے دل میں اطاعت گزار کے لئے محبت اور ہمدردی کے ساتھ نرم گوشہ پیدا کرتی ہے تو دوسری طرف اس اطاعت گزار کی اطاعت پر کمربستہ ہوجانے والے ماتحتوں کے دل میں بھی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ یوں اطاعت گزاری کے نتیجے میں دنیا امن اور محبت کا گہوارہ بن جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ تمام جماعتیں جو دُنیا کو امن اور محبت کا گہوارہ بنانے پر تُلی ہوئی ہیں، سب سے زیادہ زور اپنی تنظیم کی اطاعت پر ہی دیتی ہیں۔ سچے اور کامل اطاعت گزار ایسی جماعتوں کے لئے روح کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب بھی کوئی فرد یا چھوٹا سا گروہ ایسی کسی جماعت سے انحراف کرنے لگتا ہے تو جماعت کے سب چھوٹے بڑے اسے کچا چباڈالنے پر تُل جاتے ہیں اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک اسے تہ تیغ نہیں کردیتے یا پھر سے اطاعت پر مجبور نہیں کردیتے۔ ایسے نازک موقع پر اخلاقیات کے سارے اصول بالائے طاق بھی رکھ دیئے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں، اغماض و درگزر کا تو خیر کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ انحراف کرنے والوں کا مسئلہ پوری جماعت کی بقاء کا مسئلہ ہوتا ہے۔ منحرف ہونے والوں کا محاسبہ اور کردار کشی نہ کی جائے تو باقی اطاعت گزاروں کو اطاعت کُشی کے عمل سے کون روک سکتا ہے!
۔۔۔ ۔ہمارے معاشرے میں گھریلو ناچاقیوں کے باعث کئی گھروں میں طلاقیں ہوجاتی ہیں اور کئی گھر مستقل طور پر میدانِ کارزار بنے رہتے ہیں۔ ایسے گھر دراصل اطاعت کی نعمت سے محرومی کے باعث جہنم کا نقشہ بنتے ہیں۔ ساس، بہو میں سے کوئی ایک اور میاں بیوی میں سے اگر دونوں ہی اطاعت گزاری اختیار کرلیں یعنی اپنی آنکھیں ،کان اور ہونٹ پوری طرح مقفّل کرلیں تو نہ صرف ازدواجی زندگی خوشگوار اور مثالی ہوجائے گی بلکہ سارا گھر جنت کا نمونہ بن جائے گا۔
۔۔۔ ۔کامل اطاعت کے وصف سے محروم لوگوں کو بھیڑوں، بکریوں کے گلّوں سے سبق سیکھنا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ اشرف المخلوقات کا لقب تو بھیڑ بکریوں کو ملنا چاہئے جن کے ہاں سر تسلیم خم کرنے بلکہ قلم کرانے کا وصف پیدائشی ہوتا ہے۔
۔۔۔۔ سچے اطاعت گزار کاکمال یہ ہے کہ جو سانحہ اس کے اپنے گروہ کے ساتھ گزرے اسے تو وہ خدا کی طرف سے آزمائش اور امتحان قرار دیتا ہے لیکن اگر ویسا ہی سانحہ بلکہ اس سے بھی کم تر سانحہ کسی دوسرے گروہ کو پیش آئے تو پورے ایمانی جوش و خروش کے ساتھ اسے عذابِ الہٰی سے تعبیر کرتا ہے۔ کیسا صحیح رویّہ ہے!
ایں سعادت بزور بازو است
۔۔۔ ۔اچھا اطاعت گزار اول تو اپنے کھونٹے سے بندھے رہنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے تاہم اگر گھومنا پھرنا چاہے تو شاہی فرمان کے مطابق تین کھونٹ کے علاقوں تک ہی سفر کرتا ہے، چوتھے کھونٹ کی طرف کبھی نہیں جاتا۔ نتیجۃً آگہی کی ان ساری اذیتوں اور عذابوں سے محفوظ رہتا ہے جو ہر اُس شخص کا مقدر ہوتے ہیں جو چوتھی کھونٹ کی طرف نکل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ادب میں بھی اطاعت گزاری کے باقاعدہ سلسلے جاری ہیں۔ نظریاتی اطاعت گزاروں نے اپنے اپنے کیمپوں کو سجارکھا ہے۔ ادبی گدی نشینوں کی ساری توقیر اطاعت گزاروں کے دم قدم سے ہے، جبکہ اطاعت گزاروں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ ان کے لئے مراعات کا دروازہ ’’کھُل جا سم سم‘‘ کہے بغیر ہی کھل جاتا ہے۔ یوں اطاعت گزاری کے وصف کے باعث انہیں چوتھی کھونٹ کا سفر کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور اطاعت گزار ادیب ادب میں چوتھی کھونٹ کے سفر کی ساری صعوبتوں سے محفوظ ومامون رہتے ہیں۔ سچ ہے جنہیں اللہ رکھے انہیں کون چکھے!
۔۔۔ ۔اطاعت گزاری کا جوہر نہ صرف بغاوت، سرکشی اور انحراف کے جذبات کو ختم کرتا ہے بلکہ انسانی ذہن کو زیادہ سوچنے کے عمل سے روک کر اسے بہت سی مشکلات سے بھی نجات بخش دیتا ہے۔ زیادہ سوچنے والے لوگ یعنی آزادانہ طور پر غوروفکر کرنے والے لوگ، جب سوچتے ہیں تو بُرے بھلے میں حدِّ فاصل قائم کرکے تعصب اور آویزش کو ہوا دینے لگتے ہیں۔ سقراط اور گلیلیو ایسے ہی باغی لوگ تھے جو ہر وقت ذہن کو استعمال کرنے کی بدعادت میں مبتلا تھے۔ صبح و شام غور و فکر میں ڈوبے رہتے اور پھر اپنے باغیانہ خیالات سے اطاعت گزاروں کی نئی نسل کو بھی گمراہ کرتے۔ سب جانتے ہیں کہ ان’’ بدبختوں‘‘ کا انجام کیا ہوا۔ سچے اطاعت گزار آج بھی ان کے انجام سے عبرت پکڑتے ہیں۔
لیکن کیا واقعی؟۔
یہ سوال میں نے اپنے آپ سے کیا ہے اور اب اس کا جواب سوچ رہاہوں!
۔ ۔۔۔ظاہر ہے جواب سوچنے کے لئے اپنا ذہن استعمال کرنا پڑے گا اور اپنے ذہن کو استعمال کرنے والوں کا انجام مجھے(خاص طور پر مجھے) اچھی طرح معلوم ہے۔

***